بسم اللہ الرحمن
الرحیم
(تحقیق وتخریج:غلام نبی مدنی،مدینہ
منورہ)
دین کے بنیادی
ماخذ قرآن وسنت ہیں۔جن کی حفاظت مسلمانوں کی
ذمہ داری ہے۔اس میں شکوک وشبہات پیداکرنے والوں کا تعاقب اللہ کے دین کی خدمت اور اس
کا مطالبہ ہے۔ان دونوں ماخذوں کی حفاظت چودہ صدیوں سے دیانت داری کے ساتھ چلی آرہی
ہے۔چنانچہ ہر زمانے کے علماءکرام ومحدثین عظام نے ان ماخذوں کی حفاظت کا بھرپور انتظام
کیا۔کھوٹے کو کھرے سے الگ کرنے کے لیے اسماءالرجال کا پورا فن متعارف کروایا۔آج دنیا
جس اسلام سے متعارف ہے یہ انہی لوگوں کی دیانت داری اورمہربانی کا نتیجہ ہے۔ورنہ ہر
دور میں اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے دشمن بارہا کوششیں کرتے رہے کہ اللہ کے اس
نور کو بجھا دیں۔۔
حدیث ام حرام بنت ملحان کیا ہے؟
حدثنا عبد الله بن
يوسف أخبرنا مالك عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة أنه سمع أنس بن مالك يقول كان
رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل على أم حرام بنت ملحان وكانت تحت عبادة بن
الصامت فدخل عليها يوما فأطعمته وجعلت تفلي رأسه فنام رسول الله صلى الله عليه
وسلم ثم استيقظ وهو يضحك قالت فقلت ما يضحكك يا رسول الله قال ناس من أمتي عرضوا
علي غزاة في سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر ملوكا على الأسرةأو مثل الملوك على
الأسرة شك إسحاق قالت فقلت يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم فدعا لها رسول
الله صلى الله عليه وسلم ثم وضع رأسه ثم استيقظ وهو يضحك فقلت ما يضحكك يا رسول
الله قال ناس من أمتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله كما قال في الأولى قالت فقلت يا
رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم قال أنت من الأولين فركبت البحر في زمان معاوية
بن أبي سفيان فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت
(بخاری،کتاب التعبیر،حدیث نمبر:6600،یادرہے یہ حدیث امام بخاری
نے دیگرجگہ بھی ذکر کی ہے)
ترجمہ:اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک
رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ام حرام بنت ملحان رضی
اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے،تو ام حرام آپ کو کھانا کھلاتیں تھیں۔اور
ام حرام عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ایک دن آپ ان کے گھر تشریف لائے
تو انہوں نے آپ کو کھاناکھلایا اور آپ کے سرمیں جوئیں تلاش کرنے لگیں۔ پھرآپ صلی اللہ
علیہ وسلم سوگئےاورکچھ دیربعد ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔حضرت ام حرام فرماتی ہیں کہ میں
نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟آپ نے فرمایاکہ میری
امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئےجو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر
کی پشت پر بادشاہوں کی طرح تخت پر سوار ہوں گے۔شک اسحاق(مطلب یہ ہے کہ حدیث میں ملوکا
علی الاسرۃ،اومثل الملوک علی الاسرۃ جو شک کے ساتھ بیان ہوا یہ حضرت انس کے شاگردحضرت
اسحاق بن عبداللہ کو ہوا ہے)۔حضرت ام حرام فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ رسول!آپ
میرےلیے دعاکیجیے کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوجاؤں،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعافرمائی۔پھر
دوبارہ آپ ﷺ سوگئے،پھر ہنستے ہوئے جاگےتو میں نے کہایارسول اللہ آپ کیوں
ہنسے ہیں؟آپ نے پہلے والے قول کی طرح فرمایاکہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش
کیے گئےجواللہ کے راستے میں جہادکرتے ہوں گے۔حضرت ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے کہایارسول
اللہ میرے لیے لیے دعاکیجیے کہ میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں۔آپ ﷺ نے فرمایا نہیں تم پہلے
فریق کے ساتھ ہوگی۔چنانچہ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سمندری جہاد پر
گئیں،واپسی پر سواری سے گرپڑیں اور شہید ہوگئیں۔
قاری حنیف ڈار صاحب کا اعتراض:
موصوف فرماتے
ہیں کہ "ملحدین اس حدیث کو لے کر آپ ﷺ کی ذات پر حملہ کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا
ہے کہ اللہ کے نبی ایک اجنبی عورت کے گھرجاکرسوئیں اور اس سےجوئیں نکلوائیں،کیا آپ
کی9 بیویاں اس کام کے لیے نہیں تھیں؟نیز موصوف فرماتے ہیں کہ واقعہ افک میں بدری صحابہ
کی رعایت نہیں رکھی گئی اور انہیں سزادی گئی،تو اس طرح کی حدیثیں بیان کرنے والے روایوں
کی توقیر کرنے اور انہیں شہد لگاکر چاٹنے کی بجائے80 کوڑے مارنے چاہییں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
کیا واقعی
اس حدیث کی راویوں نے کذب بیانی کی ہے کہ انہیں کوڑے مارےجائیں؟اس کے لیے ہمیں اس حدیث
کے بارے میں چند ضروری باتیں سمجھنا ہوں گے،تاکہ حقیقت حال واضح ہوسکے۔
Ø
(1)اس حدیث کو چار روای روایت
کرتے ہیں۔جن میں حضرت انس بن مالک،عمیربن الاسود،یعلی بن ثابت،عطاءبن یسار شامل ہیں۔ان
میں حضرت انس اس حدیث کے مشہورترین راوی ہیں،آپ حضرت ام حرام بنت ملحان کے بھانجے بھی
ہیں۔پھر حضرت انس سے چار روای اس حدیث کو نقل کرتے ہیں۔اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ،محمد
بن یحیی بن حبان،ابوطوالہ عبداللہ بن عبدالرحمن انصاری اور مختار ابن فلفل۔اس کی بیان
کردہ روایت من جملہ ایک ہی ہے۔ان میں سے اسحاق بن عبداللہ کی بیان کردہ متن کے لحاظ
سے تمام الفاظ کو جامع ہے۔یہی ایک روایت ہے جس میں(وجعلت تفلی راسہ)یعنی ام حرام کاآپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی جوئیں نکالنے کا ذکرملتاہے۔
Ø
(2)اس حدیث کو بڑے بڑے محدثین
نے نقل کیا ہے۔چنانچہ امام مالک،امام بخاری،امام مسلم،اما ابوداؤد،امام ترمذی،اما نسائی،محدث
جلیل عبداللہ ابن المبارک،محمد بن سعد، اما احمدبن حنبل،ابوعوانہ،ابن حبان،ابونعیم،امام
بیہقی اورامام ابن عساکر وغیرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں ان احادیث کو نقل کیا ہے۔نیز
محدثین عظام نے اس حدیث کو صحیح بھی قراردیاہے۔
Ø (3)ام حرام بنت ملحان کو ن ہیں؟
یہ مشہور صحابیہ
ہیں،ان کا تعلق مدینہ منورہ میں انصار کے معروف قبیلے بنونجار سے تھا۔آپ خادم رسول
انس بن مالک کی خالہ اوروالدہ انس بن مالک مشہور صحابیہ ام سلیم کی بہن ہیں۔ان کے نام
میں اختلاف ہے کنیت ہی سے مشہور ہیں۔آپ نے دوشادیاں کیں۔پہلی شادی صحابی رسول حضرت
عمروبن قیس بن زیدبن سواد انصاری سے،ان کی شہادت کے بعدمشہور صحابی حضرت عبادہ بن صامت
سے نکاح کیا۔یہ اور ان کی بہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حداحترام کرتی تھیں۔جب آپ
صلی اللہ مدینہ منورہ سے قباجاتے تو عموما ان کے ہاں کھانا کھاتے اور کبھی کبھار دن
کے وقت آرام بھی فرمالیا کرتے تھے۔یادرہے قبامسجد نبوی سے تقریبا 3کلومیڑکی مسافت پر
واقع ہے۔یہاں بہت سے انصاری صحابہ کرام رہتے تھے،آپ صلی اللہ مکہ سے آتے وقت سب سے
پہلے یہیں ٹھہرے تھے۔تقریبا چودہ دن یہاں آپ نے قیام فرمایا اس دوران آپ نے اسلام کی
پہلی مسجد ،مسجد قبا کی بنیاد بھی رکھی۔ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر
ہفتے یہاں آتے تھے۔
Ø
(4)اس حدیث سے کئی احکام ثابت
ہوتے ہیں،جن میں اہم ترین،جہاد کی فضیلت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقبل کے حوالے
سے پیشین گوئی فرمانا ہے،جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کا بھی پتہ
چلتاہے۔غورکریں اس حدیث کے انکار سے کس چیز کا انکار ہوتا ہے۔
Ø
(5)احادیث کے تعارض کے وقت
قرائن وشواہد کی بنیاد پر ان احادیث کی صحت کوپرکھا جاتاہے اورحتی الامکان احادیث میں
تطبیق کی کوشش کی جاتی ہے۔
اب آتے ہیں اس حدیث پر وارد ہونے ان دوسوالوں کی طرف جن سے مرعوب
ہوکر یا مفادات کی تکمیل کی خاطر بعض نافہم لوگوں نے سرے سے اس حدیث کا انکار کرکے
محدثین اور ذخیرہ احادیث میں شکوک وشبہات کا دروازہ کھولا ہے۔
سوال نمبر1
اس حدیث کےظاہری
الفاظ سے ایک وہمہ یہ پیدا ہوتا ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ اکیلے
میں اجنبی عورت یعنی ام حرام سے ملتے تھے۔یہ بالاتفاق حرام ہے چہ جائیکہ اس کا ارتکاب
اللہ کے رسول کریں۔
سوال نمبر2
دوسر اسوال
یہ پیداہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی عورت کو اپنا جسم چھونے دیتے تھے کہ
وہ جوئیں تلاش کرے۔حالاں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بعید ہے۔حضرت عائشہ
تو فرماتی ہیں کہ آپ صلی علیہ وسلم نے کبھی کسی اجنبی عورت کو چھونے نہیں دیا۔
ان دوسوالوں
کے تشفی جوابات محدثین عظام نےدےکر حدیث کو بے غبار کردیا تھا۔لیکن گزشتہ کئی سالوں
سے مستشرقین،اور الحاد کے نام پر ان کی ہمنوائی کرنے والے نام نہاد مسلمان دین اسلام
کی عمارت کوکمزور کرنےاور ذخیرہ احادیث کو غیر معتبر کرنے کے لیے عوام الناس میں ان
وہموں کو ہوادے رہے ہیں تاکہ دشمنان اسلام کے منصوبوں کو پورا کیا جاسکے اور لوگوں
کو دین سے دورکرکے اسلام کی طرف آنے والے لوگوں کو دور رکھا جاسکے۔لیکن اسلام کی حقانیت
سے شاید یہ لوگ ناواقف ہیں،یہ اللہ کا نور ہے جو پھونکوں سے اور اس طرح کے منافقانہ
حملوں سے کبھی بجھا ہے،نہ کبھی بجھے گا،ان شاءاللہ۔۔۔۔
کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
اجنبی عورتوں کے گھر جاتے تھے؟
مذکورہ حدیث پر وار ہونے والے اشکالات کے محدثین نے مختلف جوابات
دیے ہیں۔
پہلا
اعتراض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی میں اجنبی عورت سے ملے۔اس اعتراض کے بارے
میں محدثین کرام فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث(بلکہ کسی بھی صریح حدیث) میں اس کی
وضاحت نہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام کےگھر گئے تو وہاں ان کے علاوہ
کوئی اور نہیں تھا۔بلکہ حدیث اس بارے میں خاموش ہے کہ وہاں ام حرام کے علاوہ کوئی
اور تھا یانہیں تھا۔اس لیے جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
تنہائی میں ام حرام سے ملے انہیں اپنے اس دعوی پر دلیل پیش کرنی چاہیے۔
علامہ ابن
عبدالبر یہی فرماتے ہیں کہ خلوت میں آپ اجنبیہ سے کیسے مل سکتے ہیں جب کہ خود آپ
نے کئی احادیث میں اجنبی عورت سے تنہائی میں ملنے سے روکا ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں
آپ نے فرمایا "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يخلون بامرأة ليس لها محرم
فإن ثالثهما الشيطان". (رواه أحمد 14651)(یعنی جواللہ اور آخرت پرایمان رکھتا
ہے وہ کسی اجنبی عورت کو تنہائی میں نہ ملے کیوں ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا
ہے)۔دوسری حدیث میں فرمایا کہ"ألا لا يبيتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحاً
أو ذا محرم". (مسلم 2171)یعنی کو ئی آدمی کسی شادی شدہ(اور کنواری)کے پاس رات
میں نہ ٹھہرے الا یہ کہ وہ اس کا شوہر ہو یا اس کا محرم ہو۔اسی طرح ایک اور حدیث
میں آپ نے فرمایا کہ "إياكم والدخول على
النساء، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله أفرأيت الحمو، قال الحمو الموت".
(البخاري 4934) یعنی تم(اجنبی)عورتوں سے تنہائی میں نہ ملو،ایک انصاری شخص نے
پوچھا کہ یارسول دیور کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں آپ نے فرمایا دیور(اور جیٹھ)
توموت ہے۔
محدث کبیر
علامہ دمیاطی بھی یہی فرماتے ہیں کہ حدیث میں اس بات کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ آپ
نے خلوت میں ام حرام کے ہاں گئے ہوں گے ،ممکن ہے کہ وہاں ام حرام کے شوہر عبادہ بن
صامت ،حضرت انس،یاگھر کے دوسرے افراد موجود ہوں۔کیوں کہ عموما جب مخدوم کسی کے گھر
آتا ہے تو خادمین سب مخدوم کے آس پاس موجود ہوتے ہیں۔علامہ ابن حجر کہتے ہیں یہ
قوی احتما ل ہے۔میں کہتا ہوں کہ ایک دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت انس فرماتے
ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے،گھرمیں،میں ،میری والدہ اور
میری خالہ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔۔۔۔۔(مسلم،کتاب الصلوۃ)۔
اور اگر
خلوت کسی روایت سے ثابت بھی ہو تب بھی یہ خلوت نقصان دہ یا حرام نہیں ہے۔کیوں کہ
ام حرام بنت ملحان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں۔(محرم کی دلیل آگے آرہی ہے)
دوسر سوال کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی عورت سے جوئیں نکلوائیں۔اس اشکال کے بارے میں
محدثین کی کئی آرا ہیں۔واضح اور راجح رائے یہ ہے کہ حضرت ام حرام بنت ملحان آپ صلی
اللہ کی محرم تھیں بایں طور کہ یہ آپ صلی اللہ کی رضاعی خالہ تھیں۔ظاہر بات ہے کہ خالہ
بھانجے کی محرم ہوتی ہے اور محرم محرم کو چھو سکتی ہے۔
یاد رہے لوگوں کا یہ اعتراض کرنا اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے سرمیں جوئیں کیسے پڑ سکتی ہیں؟تو اس کے جواب میں محدثین نے لکھا ہے
کہ ہوسکتا ہے جوئیں کسی اور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمیں آگئیں ہوں،یا
ہوسکتا ہے کہ گرد وغبار کی وجہ سے سر مبارک میں خارش ہورہی ہو ،اس کو تفلی راسہ سے
تعبیر کردیا۔
رہا یہ
سوال کہ ام حرام کیسے خالہ تھیں؟تو اس سلسلے میں محدث کبیر علامہ ابن وہب بن مسلم
قرشی(متوفی 196)فرماتے ہیں کہ ام حرام آپ کی رضاعی خالہ تھیں۔(التمہید:1\226،الاستذکار:5\125)۔علامہ ابن
حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ محدثین میں سے ابوالقاسم بن جوہری،داؤدی اور مہلب نے
علامہ ابن وہب کی راجح قرار دیا ہے،نیز فرماتے ہیں کہ محدث جلیل علامہ ابن جوزی نے
فرمایا ہے کہ ہم نے بعض حفاظ حدیث سے سنا ہے کہ ام حرام اور ان کی بہن والدہ انس
بن مالک ام سلیم دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ بنت وہب کی رضاعی
بہنیں تھیں۔
(فتح الباری:11\87)۔اسی طرح
علامہ عینی نے بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں محدث جلیل علامہ ابن تین رحمہ اللہ کا
قول نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام اور ام سلیم کے گھر اس لیے آتے
تھے کہ ان سے آپ کی رضاعی قرابت داری تھی۔نیز یہ بھی یادرہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کی
والدہ سلمی بنت عمر حضرت ام حرام بنت ملحان کے قبیلے کی تھیں۔اس لیے بنونجار میں
آپﷺ کی قرابتداری کا واضح ثبوت ملتا ہے۔
نوٹ:علامہ شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شرعیت کے دلائل میں
غور کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ متقدمین علماء کے اس فہم کی رعایت رکھنے کی کوشش
کرے،جس پر ان کا عمل تھا۔یہی معتدل راستہ ہے اور اس طریقے سے شرع کے ادلہ پر علم
وعمل انتہائی آسان ہوجاتاہے۔
قاری حنیف
ڈار صاحب نے محدثین کرام کی اس تحقیق پر
اعتراض کیا کہ" حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے والی عورتیں معلوم
تھیں،ثابت کیجیے کہ یہ ان میں سے کس کی بہن تھی،دوسرا اعتراض یہ کیا کہ یہ دونوں بہنیں
ام حرامؓ اور ام سلیؓم مدینے کے انصار میں سے تھیں اور حضور جب مدینہ تشریف لائے تو
وہ دودھ پینے کی عمر سے نکل آئے تو اور 53 سال کے تھے ،جبکہ ام سلیم کا دس سال کا بچہ
انس بن مالک حضور ﷺ کا خادمِ خاص تھا "۔
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ
رضاعت کے لیے یہ کوئی ضروری نہیں کہ رضاعت بس اسی عورت سے ثابت ہوگی جس کا انسان
دودھ پیے۔بلکہ جس لڑکے یا لڑکی نےکسی عورت کا دودھ پی لیا اور رضاعت تمام شرائط کے
ساتھ متحق ہوجائے تو وہ دودھ پلانے والی
عورت اور اس کے اصول وفروع(یعنی ماں،باپ،دادا،دای،بیٹا بیٹی ،بہن ،بھائی وغیرہ)ان دودھ پینے والوں
کے محرم بن جاتے ہیں۔نیز رضاعت کامعاملہ عموما مخفی ہوتا ہے،عام لوگ اس سے واقف
نہیں ہوتے۔جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں
کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے ،گھر میں ایک آدمی
تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر غصہ ہوگئے، حضرت عائشہ نے فرمایا یارسول
اللہ یہ میرارضاعی بھائی ہے۔آپ نے فرمایا"تم رضاعی بھائیوں کو دیکھ سکتی
ہو۔۔۔"(بخاری)۔اسی طرح ایک دوسری روایت میں حضرت عقبہ کا واقعہ مذکور ہے کہ
انہوں نے ایک خاتون سے شادی کی،ایک عورت آکر کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ
پلایا تھا،حضرت عقبہ نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے اور
نہ تو نے مجھے بتایا ہے،بعدازاں حضرت عقبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور
اس واقعہ کا ذکر کیا۔۔۔آپ نے فرمایا اگرایسی بات نہیں ہے تو وہ عورت پھر کیوں کہہ
رہی۔۔۔حضرت عقبہ نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی۔(بخاری)۔
مذکورہ
بالا اصولوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اگرچہ آپ کو دودھ پلانے والی
عورتیں معلوم ہیں اور آپ53سال کی عمر میں
دودھ بھی نہیں پی سکتے،لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ آپ کی کوئی رضاعی خالہ
نہیں بن سکتی؟ممکن ہے کہ ام حرام کو دودھ پلانے والی کسی عورت نے آپ کی والدہ یا
والد کو بھی دودھ پلایاہو یا اسی طرح آپ کی والدہ یا والد کو دودھ پلانے والی عورت
نے ام حرام اور ام سلیم کو بھی دودھ پلایا ہو۔اگرکوئی کہے کہ آپ کی والدہ یا والد تو مکہ میں رہتے تھے جب کہ ام
حرام مدینہ میں تو ایک ہی عورت دونوں کودودھ کیسے پلاسکتی ہیں؟تو کہا جائے گا کہ
کیا دودھ پلانے والی کے لیے مکہ اور مدینہ جانا ناممکن ہے،جب کہ مکہ مقدس ترین اور
حجاج کی آمد ورفت کی جگہ بھی ہو؟
اس کے
علاوہ بہت ساری احادیث سے شواہد وقرائن ملتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ام
حرام اور ام سلیم سے محرمیت کا رشتہ تھا۔ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ اجنبیوں کے
گھر جائیں اور انہیں اپنے جسم کو مس کرنے دیں۔
نوٹ:ام سلیم جلیل القدر صحابیہ اورحضرت انس کی والدہ ہیں۔آپ کے
بے شمار فضائل ہیں۔آپ واحد عورت ہیں جن کو حضرت ابوطلحہ سے نکاح کرتے وقت اسلام کو
مہر بنانے کی اجازت دی گئی تھی۔آپ رضی اللہ عنھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی بہت خدمت کیا کرتی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اندازہ اس سے لگائیں
کہ اپنے بیٹے انس کومستقل طور پر آپ کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔روایات میں آتا
ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جنت میں ام سلیم کو دیکھا ہے۔آپ جنگ
حنین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں بھی شریک ہوئیں۔محدثین نے آپ سے
بہت ساری روایات نقل کی ہیں۔
ام حرام اورام سلیم کی محرمیت کے شواہد
وقرائن:
بہت سی احادیث ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام حرام اور ام
سلیم سے محرمیت ثابت ہوتی ہے:نمونہ کے طور پر چند پیش خدمت ہیں۔
1:حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے
گھر آتے تو حضرت ام سلیم آپ کے لیے چمڑے کا
بچھونا بچھادیا کرتی تھیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر دن کے وقت آرام
فرماتے۔جب آپ صلی اللہ سوجاتے تو ام سلیم آپ کا پسینہ اور بال ایک شیشی میں جمع
کرلیتی،پھراس کو خوشبو میں ملاتیں،راوی کہتے ہیں جب حضرت انس کی وفات کا وقت قریب
آیا توانہوں نے وصیت کی اس خوشبو میں سے میری حنوط (وہ خوشبو جومیت کے لیے استعمال
کی جاتی ہے)میں ملادینا،چنانچہ وہ خوشبو ان کی حنوط میں ملائی گئی۔(بخاری:کتاب
الاستئذان)
2:حضرت انس فرماتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجات کے علاوہ مدینہ منورہ میں کسی اور کے گھر (عموما)نہیں جاتے تھے،سوائے
ام سلیم اور ام حرام کے۔(اس سلسلے میں ) آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں ان
پر ازروئے شفقت کے آتا ہوں کہ کیوں کہ ان کے بھائی میرے ساتھ شہید ہوئے تھے۔(بخاری۔کتاب
الجہاد والسیر،ومسلم)
3:حضرت انس رضی اللہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارے گھر تشریف لائے،گھرمیں میری والدہ،میری خالہ ام حرام اورمیرے علاوہ کوئی اور
نہیں تھا۔آپ نے فرمایا "اٹھومیں تمہیں نماز پڑھاتا ہوں"حضرت انس فرماتے
ہیں یہ فرض نمازوں کے علاوہ(نفلی) نماز تھی۔چنانچہ ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا
کی۔روای حدیث حضرت ثابت سے کسی نے پوچھا کہ حضرت انس نماز میں کہاں کھڑے تھے،انہوں
نے فرمایاکہ وہ آپ کے دائیں جانب کھڑے تھے۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہمارے لیےدنیا وآخرت میں خیر وبرکت کی دعا کی۔میری والدہ نے آپ سے
عرض کیا کہ یارسول اللہ یہ (انس)آپ کا چھوٹاخادم ہے۔چنانچہ آپ نے میری لیے ہر طرح
کی خیر وبرکت دعاکی۔حضرت انس کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے اپنی دعاکے آخر میں میرے
لیے یہ دعابھی کی کہ اے اللہ انس کے مال واولاد میں برکت عطافرما۔(مسلم،کتاب
الصلوۃ)۔
یہ نمونے کے
طور پر تین روایتیں پیش کی ہیں،جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کا خانوادہ انس بن مالک کے ساتھ خصوصی تعلق تھا،تبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم
ان سے شفقت والا معاملہ فرماتے تھے۔انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجیے کہ اگر ام حرام اور
ام سلیم آپ کے محرمات نہ ہوتیں اور پھر بھی آپ ان کے گھر آتے جاتے،کیا آپ کی ازواج
مطہرات اس بات کو برداشت کرسکتی تھیں،آپ کی ازواج کیا کوئی بھی صحابی اس بات کو
برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ آپ معاذاللہ"غیر محرم" کے ہاں آنا جانا
رکھیں،یہی نہیں مدینہ کے منافقین جنہوں نے آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا کو معمولی سے واقعے کی بنا پر مطعون ومتہم کیا،کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
اس طرح اجنبیوں کے ہاں آنے جانے پر وہ خاموش رہ سکتے تھے؟
یہ آپ کا حضرت انس،حضرت ابوطلحہ انصاری(خاوند ام سلیم)،حضرت
عبادہ بن صامت(خاوند ام حرام)اور جلیل القدر صحابیات ام حرام اور ام سلیم کے ساتھ
کوئی خصوصی تعلق تھا تو ان کے ہاں آتے جاتے تھے۔
خلاصہ بحث:
بعض نافہم
لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان روایات ہی کا انکارکردو تاکہ آپ کی طرف انگلی نہ اٹھے،میں کہتا ہوں اگر
انگلی اٹھنے اٹھانے والی بات ہوتی تو اللہ کے رسول کے دور میں منافقین اٹھاتےیا
صحابہ کرام کے دور میں فتنہ پرداز اٹھاتے،حالاں کہ کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ان بہنوں کے گھر آنے جانے پر اعتراض نہیں کیا،سوائے آج کے مستشرقین،ملحدین
اور ان کے ہمنوا نام نہاد مسلمین کے۔کیوں کہ وہ سب جانتے تھے کہ آپ قانونی طور
وطریقے سے ان کے ہاں آتے جاتے ہیں۔
لوگ اس
کشمکش میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم محدثین کرام( جنہوں نے حدیث کو سمجھا اور اس کی
خدمت کے لیے ساری زندگیاں لگائیں) کی باتوں کو مانتے ہیں تو ملحدین ہمیں جینے نہیں
دیتے،میں کہتا ہوں ناماننے والے ضدی لوگ کبھی کسی حال میں راضی نہیں ہوں گے،آپ
چاہے ان کے سامنے دلائل کا انبار لگادیں،ختم اللہ علی قلوبہم۔انہیں آپ کیسے مطمئن
کرسکتے ہیں جب کہ ان کا کام ہی انکار کرنا اور نہ ماننا ہے،ملحدین اور مستشرقین کے
مقاصد پر غور کرکےدیکھیے کہ وہ اس طرح کے اعتراضات کیوں اٹھاتے ہیں،صاف پتہ چل
جائے گا کہ ان کا مقصود بس دین اسلام میں شکوک وشبہات پیدا کرکے اس کی ترویج کو
روکنااور مسلمانوں کو اس سے دور کرنا ہے۔مجھے حیرت ہے کہ لوگ یہ سب کچھ جاننے کے
باوجود کیوں کر مسلمانوں میں فتنے پھیلاتے ہیں۔آپ خود سوچیں کہ قاری حنیف ڈار صاحب
نے جس طرح پیچیدہ مسائل اور رویات کو
برسرعام ملحدین کا نام لے کر پیش کرنا شروع کیا ہے اس سے کسی ملحد یا کسی مستشرق
کو فائدہ ہوا؟الٹا اس طرح کی باتوں سے ان باتوں کو ناسمجھنے والے لوگوں کے دلوں
میں دین اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں۔بتائیے کیا یہ دین اسلام کی
خدمت ہے؟کیا دین کی دعوت کا یہی طریقہ ہوتا ہے؟کیا اس طرز سےموصوف مسلمانوں کی
خدمت کررہے ہیں یا کافروں کی؟
مذکورہ حدیث کے انکار کے خطرناک نتائج:
کسی بھی
صحیح صریح حدیث کا انکار انتہائی خطرناک ہے۔اس سے شرعیت کے بہت سارے مسائل میں
دراڑیں پڑتی ہیں۔اسی وجہ سے محدثین کرام احادیث کے تعارض کے وقت باہم احادیث میں
تطبیق دینے کی کوشش کرتے ہیں،تاکہ دین اسلام کے کسی مسئلہ پر زد نہ پڑے۔مذکورہ
حدیث کے انکار سے بہت سے مسائل کا انکار کرنا پڑے گا۔مثلا
مذکورہ حدیث سے جہاد کی فضیلت معلوم ہوتی ہے،عورت کے جہاد
میں جانے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے،شہادت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے،محرم کا محرم کو
دیکھنا ، چھونا،خلوت میں ملنا،سونا وغیرہ کا جواز معلوم ہوتا ہے،قیلولہ کا اہمیت
کا پتہ چلتا ہے،جوئیں مارنے کا جوازمعلوم ہوتا ہے،خوشی کے وقت مسکرانے کا استحباب
ماخوذہوتا ہے،سب سے بڑھ کر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ کے خوابوں کی سچائی اور ان
کا نبوت کی دلیل ہونے کا جوازملتا ہے۔مستشرقین وملحدین تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ اللہ
کے رسول کی نبوت کا انکار کردیا جائے،اس حدیث کے انکار سے ایک گونہ ختم نبوت پر
بھی زد پڑتی ہے۔نیز امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی رو سے فضیلت معلوم
ہوتی ہے،اس حدیث کے انکار سے ان کی فضیلت پر بھی حرف آتا ہے۔صحابی رسول انس بن
مالک،صحابیات ام رسول،وام سلیم،امام مالک ؒ،صحاح ستہ کے مصنفین،اور اس حدیث کو نقل
کرنے والےاور روایت کرنے والے تمام محدثین کی عدلات وثقاہت مجروح ہوتی ہے۔
اس لیے چودہ صدیوں سے محدثین وعلماء کرام نے کبھی بھی اس
حدیث کا انکار نہیں کیا بلکہ کسی کو شبہ ہوا تو اسے مطمئن کروایا ہے۔ہمارے ایمان
کی سلامتی کے لیے بھی انہی محدثین کا طریقہ مشعل راہ ہے۔اللہ ہمیں دین حنیف کا
صحیح فہم اور سمجھ عطافرمائے،دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ھدیت عطافرمائےاگر
ان کے لیے ھدایت مقدر ہے ورنہ ان کے وجود سے دنیا کو پاک فرمائے۔آمین!
(تحقیق وتخریج:غلام نبی مدنی،مدینہ
منورہ)
(14رجب المرجب،1436ھ،بروز اتوار شام،7 بجے)
https://www.facebook.com/haris.madni
(نوٹ)
حدیث ام حرام پر مختصر بحث طوالت کی وجہ
سے لکھی،بحث لکھنے کی وجہ فیس بکی قاری حنیف ڈار صاحب کا مذکورہ حدیث میں کیڑے
نکال کر اس کاانکارکرناتھا۔بہرحال بسب بشریت اس میں کمی کوتاہی کا ہونا عین ممکن
ہے۔اس لیے راہنمائی فرماکر ثواب دارین حاصل کریں! شکریہ۔۔۔۔۔
إرسال تعليق