(تحریر:غلام نبی مدنی)
"شامی خانہ
جنگی، ایک پرامن سیاسی حل؟"
چارماہ
پہلے کی بات ہے مسجدنبوی کے بیرونی دروازے سے نکل کر کچھ آگے ہی بڑھا تھا کہ سامنے
پرفیوم کی ریڑھی لگائے ایک 9سال کے بچے کے پاس قدم رک گئے،پرفیوم دیکھنے کے بہانے
بچے سے پڑھنے کی اس عمر میں یوں ریڑھی لگاکرمشقت اٹھانے کی وجہ دریافت کی۔بچے نے
معصومیت سے جواب دیا،کہ شامی مہاجر ہوں،گھر میں والدہ بہنوں کے علاوہ کوئی
نہیں،ہمارے والد شام میں پھنسے ہیں،میں اور 13 سالہ بڑا بھائی والدہ اور بہنوں کے
ساتھ یہاں سعودیہ آئے ہیں،گزربسر کے لیے دونوں بھائی پرفیوم کی ریڑھی لگاتے
ہیں۔9سالہ شامی بچے کی بے کسی دیکھ کر مجھے سعودی عرب کے نو نو سال کے وہ بچے یاد
آئے جنہوں نے کبھی ریڑھی کو ہاتھ تک لگا کر نہیں دیکھا،جن کی ہرخواہش زبان پر آنے
سے پہلے ہی پوری کی جاتی ہے۔شامی بچے کے پاس کھڑا سوچتا رہا کہ اکیسویں صدی کے
فرعون بشار الاسد نے 3 سالہ ایلان کردی سمیت نونو سال کے ان نونہالوں کو آخر کس
جرم میں اب تک درندگی اور سفاکیت کا نشانہ
بنایا ہواہے؟
پانچ
سال ہونے کوہیں،بشار الاسد جیسا ظالم درندہ سات ارب جیتے جاگتے ہنستے مسکراتے
انسانوں کے سامنے شام کے معصوم لوگوں کا خون چوس رہاہے، روزانہ 1691 مظلوم افراد
بشار کے ظلم کے نشانہ بن رہے ہیں،70 لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوچکے ہیں،40 لاکھ
شامی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں۔اکیسویں صدی کا سب سے بڑا
ظلم شام کے مظلوموں پر ڈھایا جارہاہے،شاید
افغانستان،عراق میں بھی اتنا ظلم امریکہ نے نہ ڈھایا ہو جتنا ظالم بشار اپنے
حواریوں کے ساتھ مل کر ڈھارہاہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سات ارب انسان پانچ سال
سے جاری اس ظلم کے خلاف اب تک کچھ نہیں کرسکے،المیہ یہ بھی ہے کہ ڈھائی ارب مسلمان
خاموشی سے شام کے ان مظلوم مسلمان بھائیوں کو پانچ سال سے سفاکیت کے ساتھ مرتا
دیکھ رہے ہیں۔حیرت تو ان اسلامی ملکوں اور
ان کے حکمرانوں پر بھی ہے،جن کے ایک اشارے پر امریکا تن تنہا عراق کو تہس نہس
کردیتاہے،لیکن شام کےایک ظالم درندے کو تخت سے اتارنے کے لیے یہ حکمران اشارہ کرتے
ہیں،نہ امریکا بہادر دنیا کی بدترین دہشت گردی کے خلاف خود انصاف کرنے میدان میں
آتاہے۔دکھ اس بات پر بھی ہے کہ 193 ملکوں کے نمائندوں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی
تنظیم اقوام متحدہ بھی پانچ سال سے اس ظلم
کے خلاف سوائے دو تین جنیوا کانفرنسوں،اجلاسوں اوروقتی بیانات کے کچھ نہیں
کرسکی۔غیروں سے کیا گلہ،شکوہ تو57 اسلامی ملکوں کی نمائندگی کرنے والی سب سے بڑی
تنظیم اوآئی سی(OIC) سے بھی ہے،جو
آج تک کسی شامی مظلوم کو بشار کی درندگی سے نہ بچاسکی۔
کس
کس کا رونا رویا جائے،کس کس کو الزام دیا جائے،یہاں سب اپنے مفادات اور اقتدار کے
لیے کھینچا تانی میں لگے ہیں۔اسلام کا نام نہاد علمبردار ایران تنہا دنیا کے اس
بدترین ظلم اور دہشت گردی کا ذمہ دارہے۔ورنہ روس کی کیا مجال کہ وہ پانچ ہزارمیل
سے اڑ کر شام کے معصوم لوگوں پربمباری کرے۔تاریخ گواہ ہے ایران فتنوں اور سازشوں
کا گڑھ رہاہے،آج بھی ایران کی سازشی اور فتنہ گری مشرق وسطی میں خانہ جنگی کی آگ
بڑھکائے ہوئے ہے۔یمن میں ایران کی دخل اندازی اور حوثیوں کی معاونت دنیا جانتی
ہے،عراق میں ایران کی خون ریزی کسی دلیل کی محتاج نہیں،بظاہر عراق کا حکمران حیدر
العبادی ہے،لیکن عملا حکمرانی ایران کا سازشی تھنک ٹینک کررہاہے،شام میں ایران کی
باقاعدہ خصوصی فوج زینبیوں اور فاطمیوں کے نام کے جتھےبناکرمسلمانوں کے گلے کاٹ
رہی ہے،اب تک ایرانی فوج کے کئی کمانڈر شام میں مارے جاچکے ہیں۔ایران شام میں کتنی
شدت سے ظلم ڈھارہاہےاس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پاکستان سے شعیت کے نام پر لوگوں
کو بھرتی کرکے شام میں لڑایا جارہاہے۔تاریخ شاہد ہے اسلام کو نقصان یہود ونصاری سے
زیادہ منافقین سے پہنچا،ایران آج کے دور کا سب سے بڑا منافق ہے،جو ایک طرف خلیجی
ممالک سے دوستی کا دم بھرتا ہے،دوسری طرف ان پر تسلط جمانے کے لیے سرتوڑ کوششیں
کررہاہے۔
شام میں
جاری ایران کی فتنہ گری اور سازش کو اگر نہ روکا گیا تو مشرق وسطی طویل عرصے تک
سرد جنگ میں مبتلا رہے گا،یہ طوالت بالآخرعالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔اس وقت
شام کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے لے کر سعودی عرب تک کوششیں ہوچکی
ہیں۔حالیہ ریاض کانفرنس جس میں شامی حزب اختلاف،شامی جہادی تنظیموں اورخلیجی ممالک
کے 100 کے قریب مندوبین شریک ہوئے،اس میں
شام کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے فارمولا طے کیا گیا کہ بشار الاسد موجودہ سیاسی
نظام سے الگ ہوجائیں اور اقتدار سیاسی طریقے سے شام کی عوام کو سپرد کردیں۔سعودی
عرب کے دارالحکومت ریاض میں تین دن تک جاری رہنے والی کانفرنس کے شرکاء بظاہر
سیاسی حل نکل آنے کے لیے پرامید ہیں اوراس طرز کی عنقریب دوسری کانفرنس قطر میں
کرنے جارہےہیں،لیکن گزشتہ پانچ سالوں میں ایران کی شام میں مسلسل پیش قدمی،بشارکی
سفاکیت،شام میں ایران کی ایماءپرروس کی شرکت،عالم اسلام کی بے بسی،یمن میں جاری
ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی اب تک عدم پسپائی،داعش کے نام پرفرانس،برطانیہ
اور امریکہ کی شام میں مداخلت،یہ وہ حقائق ہیں،جوشام کے کسی بھی ممکنہ سیاسی حل کی
نفی کرتے ہیں۔اگر بشار نے حکومت چھوڑنا ہوتی تو پانچ سال پہلے ہی چھوڑدیتا جب کہ
اس وقت اس کے پاس داعش کا سوشہ تھا،نہ روس وایران کا عملی ساتھ،اب جب کہ ان دونوں
کا بھر پورساتھ بشار کے ساتھ ہے تو کیسے وہ مائینس بشار کے ساتھ شام کے سیاسی حل
پر راضی ہوجائےگا؟جہاں تک بات ہے خلیجی ممالک کے بشارکو زبردستی معزول کرانے کی وہ
جہاں پانچ سال پہلے نہیں مانی گئی اب کیسے مانی جائی گی؟
شامی خانہ
جنگی کا ایک ہی حل ہےاوروہ تمام خلیجی ممالک،پاکستان اور ترکی کا بیک زبان ہوکر
امریکا اور اس کے اتحادیوں سے دوٹوک الفاظ میں بات کرنا ہے کہ بشار کے حمایتی
ایران اور روس کو شام سے نکالاجائے، جب امریکا اور یورپ ایران کو معاشی،دفاعی پابندی
کی دھمکیاں دے کرایٹمی پروگرام پر ڈیل کرسکتاہے توشام کے معاملے میں کیوں نہیں
کرسکتا؟ ظاہر ہے جب پشت پناہ چلے جائیں گے تو بشار درندہ بھی باآسانی قابوآجائے
گا۔اگرچہ پاکستانی خارجہ پالیسی شام کے معاملے میں دوررہنابہترسمجھتی ہے،لیکن یہ
پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ پاکستان سے جانے والی ایران کی مالی وجسمانی مدد کو
سختی سے روکے،کیوں کہ محفوظ مشرق وسطی بالخصوص محفوظ ترکی نہ صرف پاکستان کی ترقی
کا سبب ہے بلکہ پاکستان کی نظریاتی وفکری اساس کی بقاء کا بھی ضامن ہے۔ورنہ اگر ان
ممالک نے آج بیک زبان ہوکر دوٹوک بات نہ کی تو ،لیبیا،مصر،تونس،عراق،افغانستان،شام
کے بعد اگلا نمبر ان کا ہوگا جس کے آثار خلیجی ممالک ابھی سے دیکھ رہے ہیں۔
gmadnig@gmail.com
https://www.facebook.com/haris.madni
إرسال تعليق