تحریر:غلام نبی مدنی(مدینہ منورہ )
《مکہ،جدہ اور طائف کاایک یادگار سفر 》
حرمین شریفین کی سکونت نعمت خداوندی ہے۔خصوصا مدینہ منورہ میں اللہ کی خاص رحمت ہے۔برکت ہی برکت ہے،کیسے نہ ہو مدینہ منورہ کے شہزادے سیدنا مصطفیٰﷺ نےاس مبارک شہر کے لیے اپنے رب سے برکت کی خصوصی دعاجو کی تھی کہ اے اللہ مکہ کی بنسبت مدینہ منورہ میں دگنی برکت عطاکر،یہاں کی بیماری جحفہ (مدینہ کے باہر ایک مقام کا نام ہے)منتقل کردے۔اس مبارک دعا کی برکت ہے کہ آج بھی یہاں ایک آدمی کا کھانا دو آدمی بآسانی کھاسکتے ہیں۔چند دن قبل ایک مصری ٹیکسی ڈرائیور ملا،کہنے لگا میں سواری کے لیے سارا سارادن گھومتا رہتا ہوں پھر بھی نہیں ملتی،لیکن جب بھوک لگے اور کھانا کھاؤں تو جہاں سے بھی کھانا کھاؤوں وہاں سے سواری مل جاتی ہےیوں کھانےکے پیسے اسی وقت اللہ دے دیتا ہے،انتہائی خوشی میں جھوم جھوم کر کہہ رہا تھا کہ یہ سب مدینہ کے اس شہزادے کی برکت سے ہے۔حقیقت یہی ہے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور محبت کا اثر آج بھی اہل مدینہ میں بنسبت مکہ کے بہت زیادہ پایاجاتاہے۔
بہرحال 30محرم الحرام1437بروز جمعرات رات گیارہ بجے مدینہ منورہ سے چاردوستوں محمد عدنان،محمد تابش ذکی انڈیا،مفتی خلیل الرحمان اورقاری ذیشان جیلانی کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔موسم حج کے بعد تقریبا ایک ماہ تک باہر کے لوگوں کے لیےعمرے بندہوتےہیں اور مکہ مکرمہ میں رش بھی عام دنوں کی بنسبت کم ہوتاہے،اس لیے اس عرصے میں پورے سعودیہ عرب سے حتی کہ خلیجی ممالک سے لوگ عمرے کے لیے شوق سے آتے ہیں۔یہ انتہائی اہم موقع ہوتاہے کہ جس میں انسان باآسانی اور زیادہ سے زیادہ عبادت کے لیے بیت اللہ میں وقت گزار سکتاہے۔ہم بھی اسی خاص موقع سے فائدہ اٹھانے مکہ مکرمہ پہنچے،جمعہ کے مبارک دن فجر کے بعد باآسانی عمرہ اداکیا،پروگرام کے مطابق رات مکہ مکرمہ میں گزارنی تھی اور اگلےدن طائف شہر کے لیے روانہ ہوناتھا۔لیکن عشاء کی نماز کے بعددوستوں کا باہم مشورہ یہ ہوا کہ رات کا کھانا "جدہ"میں کھایاجائے،اس بہانے جدہ شہر بھی دیکھنے کو مل جائےگا۔جدہ کو سعودیہ عرب کے دیگر شہروں میں خاص فوقیت حاصل ہے،گنجان آبادی والا یہ شہر بحرالاحمر کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتاہےدوردراز سے لوگ ساحل سمندر پر تفریح کے لیے آتے ہیں،یہاں بحرالاحمر میں دنیا کا سب سے لمبافوارہ(فاؤنٹین)بھی ہے۔1024فٹ لمبایہ فاؤنٹین رات میں دیکھنے کے قابل ہے۔اس کے قریب ہی دنیا کا سب سے اونچا فلیگ پول بھی ہے،جس پر سعودی پرچم معلق ہے۔558فٹ بلند فلیگ پول پر سعودیہ کے قومی دن پر سعودی پرچم بڑی شان وشوکت سے لہرایاجاتاہے۔وقت کی کمی کےباعث یہ دومقامات دیکھ کر واپس مکہ مکرمہ آگئے۔
اگلے دن حسب پروگرام مکہ مکرمہ میں مسجد جن،(جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو دعوت دی تھی)ظہر کی نمازاداکی،نماز کے بعد صلح حدیبیہ کے تاریخی مقام کے لیے روانہ ہوئے۔آج کل یہ علاقہ"شمیسی"کے نام سے معروف ہے،کہاجاتاہے ہے کہ شمیسی نام کے شخص نے یہاں ایک کنواں کھوداتھا،اس کے نام پر اس علاقے کو شمیسی کہاجاتاہے۔یہ علاقہ مکہ سے 25کلومیٹرمغربی جانب جدہ کے پرانے راستے پر واقع ہے۔یہاں مشہور مسجد مسجد شمیسی کے نام سےہے،جس کے بارے مشہوریہی ہےکہ یہ وہی مسجد حدیبیہ ہےجہاں6ہجری میں "صلح حدیبیہ"کا مشہور واقعہ ہواتھا۔اسی مسجد کے پڑوس میں ایک پرانی مسجد بھی اسی واقعہ کی وجہ سے مشہورہے،جس کی صرف دیواریں باقی ہیں۔ام القریٰ یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر فوازالدھاس کے مطابق یہ وہ معروف مسجد حدیبیہ نہیں ہے بلکہ یہ تو سعودی عہد میں تقریبی طورپر تعمیر کی گئی ہے۔
مسجد سے کچھ فاصلے پر ایک کنواں بھی ہے،جو"بئر حدیبیہ"کے نام سےمعروف ہے۔یہ وہی کنواں ہے جہاں معجزہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوا تھا۔صلح حدیبیہ کے موقع پر آپﷺنے 1400 صحابہ کے ساتھ اسی علاقے میں پڑاؤ کیا تھا،اس زمانے میں پانی کا مقام دیکھ کر ہی پڑاؤکیا جاتاتھا،بظاہر لگتایہی ہے کہ اسی کنویں کے آس پاس آپ نے پڑاوکیا ہوگا۔بہرحال صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام پانی کی تلاش میں جب اس کنویں پر پہنچے تو اس کا پانی بہت کم تھا،صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی،عین ممکن تھا کہ اگرکنویں کا پانی نکال لیا جائے تو وہ سب کو کافی نہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ بنفس نفیس اس کنویں پر تشریف لائے،کچھ پانی منگواکر کنویں میں کلی فرمائی،دیکھتے دیکھتے ہی کنواں منڈھیروں تک بھر گیا،صحابہ کرام نے خود بھی سیر ہوکر پانی پیا اور جانوروں کو بھی پلایا اوربرتنوں میں بھی بھر لیا،لیکن کنویں کاپانی بدستور ویسا ہی رہا۔سبحان اللہ اس مبارک کنویں کے گرد بیٹھ کر چودہ سوسال قبل کا وہی تاریخی منظر یادکرکے دل باغ باغ ہوگیا۔لیکن ساتھ ساتھ افسوس بھی ہواکہ یہ تاریخی کنواں کس قدرخستہ حالی کا شکارہے۔یہ لوہے کی ایک فیکٹری کی چاردیواری میں واقع ہے۔جسے عام لوگوں کی زیارت کے لیے بندکررکھاہے۔ہم بھی بمشکل اجازت لے کراس تک پہنچے۔پچھلے سال سعودی حکومت کی طرف سے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی کہ اس علاقے میں موجود تمام تاریخی مقامات کی تحدیدکرکے ان کے ارد گرد عمارت یا مسجد بنادی جائے۔اللہ کرےیہ کام جلد ہوجائے اور عام لوگوں کو ان مقامات سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع ملے۔
دن ساڑھے تین بجے کے قریب یہاں سے محسن برصغیرمحمدابن قاسم ثقفی کے آبائی شہر طائف کے لیے روانہ ہوئے۔طائف کا فاصلہ یہاں سے 140کلومیٹرہے۔طائف میں ہمارے پیش نظررسول اللہﷺکے چچازاد بھائی عبداللہ بن عباس،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ کے مقبرہ مبارک،مسجد کوع اور مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری تھی۔مغرب سے کچھ دیر پہلے ہم مسجد العباس پہنچے،مسجد کے پہلو میں ترجمان القرآن عبداللہ ابن عباس کی قبر چاردیواری میں گھری ہوئی ہے،اس کے بالکل سامنے ایک اور چاردیواری ہے جہاں چند قبریں ہیں،وہیں محمد بن حنفیہ آرام فرماہیں۔دونوں جلیل القدر بزرگوں کوچاردیواری کے باہرکھڑے ہوکرخراج عقیدت پیش کر کے مسجدالکوع کی طرف نکل گئے۔
سفرمیں آسانی کے لیے گائڈکی معیت بہت ضروری ہے، ورنہ سفرراستہ نہ جاننے کی وجہ سے بہت لمبا بھی ہوجاتاہے،ہمارے پاس کوئی گائڈ تو تھا نہیں،بس جی پی ایس کی مددسے لوکیشن سیٹ کرکے سفرکررہےتھے،بسااوقات جی پی ایس بھی انسان کو بھٹکادیتا،ہم بھی کئی بار بھٹکے۔بہرحال مغرب کے بعد "مسجدالکوع"پہنچے۔یہ مسجد ابن عباس سے تقریبابیس منٹ کے فاصلےپرہے۔پہاڑکے دامن میں واقع یہ مسجدبہت پرانی اور خستہ حال ہے،دوسوسال سے زائد پرانی اس مسجد کے بارے میں مشہورہے کہ اس مقام پرآپﷺنے قبیلہ ثقیف کے دعوتی سفر میں قیام کیا تھا،ایک پتھر پرکہنی مبارک سے ٹیک لگاکر قبیلہ ثقیف کی ہدایت کے لیے دعافرمائی تھی،(کوع)چوںکہ عربی میں کہنی کو کہتے ہیں،اس وجہ سے اس مسجد کانام مسجدالکوع پڑگیا،واللہ اعلم۔
ہماری اگلی منزل طائف کا وہ مشہو رباغ تھا جہاں آپﷺ نےطائف کے مشہوردعوتی سفر سے واپسی پر قیام کیا تھا،جہاں آپ کو عداس نامی باغ کے ملازم نے انگور کا خوشہ پیش کیا تھا،لیکن رات ہوگئی تھی اور ہم نے واپس مدینہ منورہ بھی جاناتھا،اس لیے مشورے سے یہی طے ہواکہ واپس مدینہ منورہ جاناچاہیے،ان شاءاللہ آئندہ مستقل طائف کے لیے رحلہ بناکرآئیں گےیہاں ایک دودن قیام کرکے طائف کے تمام تاریخی مقامات دیکھیں گےاورطائف سے 75کلومیٹرکے فاصلے پر بنوسعدکاتاریخی علاقہ بھی دیکھیں گے،جہاں آقائے نامدار ﷺنے اپنی مبارک زندگی کے ابتدائی ایام گزارےتھے،جہاں شق قلب جیسا مشہور واقعہ بھی رونماہواتھا۔
https://www.facebook.com/haris.madni
إرسال تعليق