(تحریر:غلام نبی مدنی)
《مخلوط تعلیم اور علماء کرام》
حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ کے فساد کی اصلاح ہرانسان کی ذمہ داری ہے،اگرانسان بذات خود ٹھیک ہوتو معاشرہ خود بخود درست سمت بڑھتا رہتاہے۔سوال یہ ہے کہ فرد کی اصلاح کون کرے گا؟معروف طریقہ یہی چلا آرہاہےکہ ہر بڑا چھوٹے کی فکر کرے گا،ماں باپ اپنی اولاد کو اچھے برے کی تمیز اسی جذبے کےتحت سکھاتے ہیں،لیکن اسلامی معاشرے میں فرد کی اصلاح علماءکرام کے ذمہ ہے، کیوں کہ یہ انبیاءکرام کے وراث ہیں۔انبیاءکااول وآخر مقصد ہی فرد کی اصلاح تھا۔آج کے پرفتن دور میں علماءکرام کی یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے،جب کہ معاشرے میں ہرگھر،ہرفرد فساد درفساد کے بچھائے گئے جالوں میں جکڑا ہواہے۔
کیا علماءکرام اپنی یہ ذمہ داری ادا کررہے ہیں؟یہ انتہائی اہم سوال ہے،جس پر ہر صاحب علم کو غور کرنا چاہیے۔جہاں تک علماءکرام کے دائرہ کار کی بات ہے وہ واضح ہے کہ معاشرہ یعنی "انسانوں کی اصلاح کرنا"،چاہے وہ انسان عام سماجی برائیوں میں مبتلاہو،یااللہ ورسول کے حقوق میں غفلت کا مرتکب ہو۔الحمدللہ مساجد و مدارس اللہ ورسول کے حقوق میں غفلت کے مرتکب لوگوں کی بھرپور طریقے سے راہنمائی کررہے ہیں لیکن تلخ حقیقت ہے کہ عام سماجی برائیوں کے خلاف ان کی عملی کوششیں اس نہج کی نہیں ہیں جس نہج کی نماز زکوۃ،ودیگر عبادات میں کوتاہی کے مرتکبین کے خلاف ہوتی ہیں۔مخلوط تعلیم یا سود ایک سماجی برائی ہے،جوپورے اسلامی معاشرے میں سرایت کرچکی ہے۔مسلم بات ہے کہ برائی کو برائی کہنے سے وہ ختم نہیں ہوگی،بلکہ عملاحسب طاقت اس کے ختم کے لیے کچھ کرناہوگا۔علماءکرام کی نہ صرف یہ ذمہ داری ہے کہ اس برائی کی نشاندہی ومذمت کریں بلکہ عملا بھی اس کے خاتمے کے لیے کام کریں۔اس موقع پر عموما یہ کہہ دیا جاتاہے کہ بس ہماری طاقت اتنی ہی ہے کہ ہم مخلوط تعلیم کو برائی اور سود کو اللہ کے خلاف اعلان جنگ کہہ سکتے ہیں،عملاہم کچھ نہیں کرسکتے۔کسی حدتک یہ بات درست بھی ہوسکتی ہےلیکن اگرہمت اور منصوبہ بندی کے تحت اس کے خاتمے کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے تو آہستہ آہستہ یہ برائی ختم ہوسکتی ہے۔
ایسی تعلیم جو انسان کی ضروریات میں معاون ہو وہ انسان کا بنیادی حق ہے،جوکوئی نہیں چھین سکتا،مذہب اسلام نہ عالم دین ،والدین کا جبر ،نہ معاشرتی روایات،مرد کی غیرت،نہ عورت کی حجابیت،لیکن یہ تعلیم یا طرز تعلیم اگرمذہبی یامعاشرتی ضابطوں کو چیلنج کرےیا معاشرتی فساد کا باعث ہو تو ضرور اس کے آگے رکاوٹ کھڑی کی جائی گی۔مخلوط تعلیم جس میں لڑکے اور لڑکیاں باہم ایک ساتھ مل کر تعلیم حاصل کرتے ہیں،بظاہر دیکھنے میں کوئی بری چیز نہیں،لیکن انسان فطری طور پراپنے ہم جنس کے ساتھ مل بیٹھ کر فطری طور پر مغلوب ہوجاتاہے،جب کہ باہم محرمیت کا رشتہ بھی نہ ہو۔تو یہ غلبہ بسااوقات انسان کو طرح طرح کے خیالات اور وساوس کی طرف لے جاتاہے،جس کا نتیجہ،مخلوط تعلیم میں پروان چڑھنے والے پیار کی ناکامی کی صورت"خودکشی"،یا معاشرتی مذہبی روایات کو توڑ کر گھر سے بھاگ کر والدین اور خاندان کی "بدنامی"کی صورت نکلتاہے۔ظاہر سی بات ہے ایسی تعلیم یا طرز تعلیم کی کوئی بھی منصف آدمی حمایت نہیں کرسکتا چہ جائیکہ علماء کرام اس پر خاموش رہیں۔
سوال یہ ہے مخلوط تعلیم سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائےاور علماء کرام اس میں عملاکیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟بظاہر یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کو عام اورمفید بنانے کے لیے طلبہ وطالبات کے علیحدہ علیحدہ سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز قائم کرے۔یہ کام اتنامشکل بھی نہیں،بس توجہ کی ضرورت ہے۔جہاں اتنا بجٹ اور چیزوں پر خرچ کیا جاتاہےوہاں سیپرٹ تعلیمی اداروں پر کیوں کر خرچ نہیں کیا جاسکتا؟ جہاں اور بہت سے قومی اداروں کی نجکاری کی جاسکتی ہےوہاں علیحدہ علیحدہ تعلیمی ادارے بنانے والے افراد کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی جاسکتی؟اگر حکومت از خود گرلز سکولز،وکالجز اور یونیورسٹیز کی روایت کو عام کرنے کا تہیہ کرلے توبہت سے لوگ اس کام میں مدد کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
علماءکرام عملاًاس کام میں اپناکردار اس طرح ادا کرسکتے ہیں،کہ وہ ایسے افراد کو تیار کریں جو علیحدہ طالبات کے لیے سکولز کالجز بناسکتے ہوں،علماء کے لیے یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں،کیوں کہ مساجد کی نسبت سے معاشرے کے تمام افراد ان کی نظرمیں ہوتے ہیں،جیسے طالبات کے لیے الگ مدارس بنائے جاسکتے ہیں ویسے علیحدہ سکولز وکالجز اور یونیورسٹیز بھی بنائی جاسکتی ہیں۔علماءکرام اگراس کے لیے کمرکس لیں تو مخلوط تعلیم کے نام پر ہونے والی تمام سماجی برائیوں کا خاتمہ ہوسکتاہے۔جہاں تک بات سکولز کالجز میں پڑھائی جانے والی تعلیم کی ہے تو اگر وہ انسان کی ضروریات میں معاون نہ ہو یا معاشرتی ومذہبی روایات سے ٹکرائے تو ایسی تعلیم کو ان میں داخل ہی نہ کیا جائے۔سادہ لفظوں میں دینی تعلیم کی طرح دنیاوی تعلیم جو انسان کو زندگی گزارنے میں راہنمائی کرے بے حد ضروری ہے۔یہ فکر کہ علماءکرام بس دینی تعلیم کے محافظ ہیں دنیاوی تعلیم سے کوئی غرض نہیں عصر حاضر کی ضرورت سے عدم واقفیت اور معاشرتی ضروریات سے چشم پوشی کی دلیل ہےجسے کوئی بھی منصف درست نہیں کہہ سکتا۔کتنی تلخ حقیقت ہے کہ عورت مجبورا مرد کےسامنے علاج کے لیے بے حجاب ہوتی ہے۔اگر عورتوں کو علیحدہ تعلیم کےمواقع دے کر آگے بڑھنے دیا جائے تو یہ مجبوری باآسانی ختم ہوسکتی ہے۔
اسی طرح سود کو محض حرام کہنے سے یہ لعنت ختم نہیں ہوگی،بلکہ عملا اس کامتبادل نظام پیش کرکے اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی،اگرچہ اسلامی بینکاری نظام اس لعنت کے خاتمے کے لیے پیش کیا گیا لیکن وہ باہمی اختلاف کا شکار ہوکر متنازعہ بنادیاگیا۔کتنابڑاالمیہ ہے کہ "ہم مسلمان سود کا متبادل تلاش کرکے اس پر عمل نہ کرسکیں" اس طرح تو اسلام کے پیغام کہ "اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے"بالکل ناکارہ ہوجائے گا!
gmadnig@gmail.com
إرسال تعليق